ہمیں کیسے پتا چلے گا کہ جوکتاب ہم پڑھنے والے ہیں وہ ہمارے لئے ٹھیک ہے کہ نہیں۔؟
جب بھی ہمیں کتاب پڑھنی ہوتی ہے ہم اکثر و بیشتر گوگل پر جاکر سرچ کرتے ہیں یا پھر کہیں کوئی لائینز وغیرہ دیکھ کر پڑھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ کبھی کبھار کوئی دوست ہمیں کسی کتاب کے بارے میں بتا جاتا ہے۔ لیکن ایک اچھے قاری کے لئے جو مطالعے کا شوقین ہے، ، اس کے لئے اس طریقے کو اپنانا درست نہیں۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ آپ کہیں کھانا کھانے گئے (کتابوں کی ویب سائٹ) . یہ جانے بغیر کہ آیا وہاں صحت کے لئے فائدہ مند کھانا بنتا بھی ہے کہ نہیں۔(اس ویب سائٹ پر فائدہ مند کتابیں موجود ہیں کہ نہیں) ۔
بنایا جاتا ہے تو صاف ہاتھوں سے کہ نہیں۔(وہاں موجود ناولز صاف ذہن کے حامل لکھاریوں نے لکھے ہیں کہ نہیں؟)یہ سب جانے بغیر اگر آپ بنا خیال کئے وہ کھانا کھالیں گے(وہ
کتاب پڑھ لیں گے ) تو آپ کی صحت (زہنیت)خراب ہو سکتی ہے۔
اس لئے ڈائریکٹ کبھی بھی جو سامنے آئے وہ نہ پڑھیں۔ ریویوز دیکھیں۔ یہ چھوٹی چھوٹی لڑکیاں جو آج کل ناول لکھ رہی ہیں۔ ان میں سے کئی کو یہ نہیں پتا ہوگا کہ کس مسئلے کو کیسے ڈیل کرنا ہے۔ یہ محض ایک ٹرینڈ بن رہا ہے۔ کوئی بے ہودہ ڈائلاگ جب یہ پہلی بار ٹک ٹاک پر ڈالتے ہیں اور وہ مشہور ہوجائے تو یہ خود کو لکھاری سمجھ کے اپنے خواب لکھنا شروع ہوجاتی ہیں۔ اب آپ کہیں گے خواب ؟ کیسے خواب۔۔۔۔۔
اب غور سے سنیں۔ ہر انسان کے زہن میں ان کی ایک تصوراتی دنیا ہوتی ہے۔ جہاں کے ہیرو وہ خود ہوتے ہیں۔ اس دنیا میں وہ انسان سب سے خوبصورت ہے۔ باقی لوگ ملازمین کی طرح ان کے آگے پیچھے گھومتے رہتے ہیں۔ اب مردوں کی تصوراتی دنیا الگ ہوتی ہے اور عورتوں کی الگ۔ ہم عورتوں کی دنیا کے بارے میں بات کریں گے۔ کیوں کہ ان نا تجربہ کار لکھاریوں میں اکثریت خواتین کی ہے۔
خواتین کی دنیا میں وہ کم عمر، بہت زیادہ زہین، حوروں کی طرح خوبصورت ، اور سب کی پسندیدہ ہوتی ہیں۔ ہم یہاں کسی کے اوپر انگلی نہیں اٹھا رہے آپ لوگوں سے انسانی نفسیات شیئر کررہے ہیں۔اس دنیا میں سچویشنز اور لوگ بدلتے جاتے ہیں بالکل کہانیوں کی طرح۔ اب جو لکھاری کم عمر اسکول کی بچیوں کو مختلف انداز میں محبت میں پڑھتا دکھا رہی ہیں۔ ایسے ہیروز جن کو ویلن ہونا چاہئے انہیں لکھ رہی ہین۔ جن کی کہانی کا اہم مقصد رومانس ہے۔ ساتھ میں وہ کچھ مثبت پیغام بھی دے دیتی ہیں تاکہ قارئین انہیں زیادہ غلط نہ سمجھیں۔ یہ جو کچھ وہ لکھتی ہیں یہ اردو ادب نہیں ان کی اپنی زہنی خرافات ہیں۔ ان مسائل کو حل کیا جاتا ہے۔ یہ بیماری کی طرح ہر انسان کو اپنے اوپر کام کر کے ان مسائل سے چھٹکارا پانا ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ چیزیں ہماری عزت نفس، ہماری زہنی صحت اور شخصیت سے جڑی ہوتی ہیں۔ اگر ہم انجوائمنٹ کے لئے بھی کچھ کرتے ہیں جیسے جنک فوڈ کھانا، ڈراماز دیکھنا، تو اس میں بھی ہم اپنے لئے حدود رکھتے ہیں ہر چیز کھا نہیں لیتے۔ ہر چیز دیکھ نہیں لیتے ، ہر چیز پڑھ نہیں لیتے اور ہر چیز سن نہیں لیتے۔
آپ اگر ان لکھاریوں کے خلاف بولیں گے تو ان کے قارئین جو کہ اپنے آپ کے دشمن ہیں جو اپنی شخصیت، زہنیت اور حیا کا سودا کرکے ان لکھاریوں اور ان کے کرداروں کے پجاری بن چکے ہیں، ان لکھاریوں کو ویوز دے کر ان کی کمائی کا سبب بن جاتے ہیں۔ اور دوسری لکھاریوں کو بھی اس کام کی طرف بلانے کی وجہ بن جاتے ہیں۔ ان کو تو حرام کا پیسہ مل رہا ہے آپ کو کیا مل رہا ہے ۔ گندے مناظر اور ساتھ میں ایک سبق کہ عورت کی عزت کیسے کی جاتی ہے۔ کہ برے لوگوں کا خاتمہ کیسے کیا جاتا ہے۔ کیا آپ کو اس ایک کتاب تضاد نہیں دکھ رہا۔ ایک طرف وہ کسی آیت کو پیش کر رہی ہیں تو دوسری طرف بے حیائی پھیلا کر اللہ کے احکام کو ٹھکرا رہی ہے۔
کیا آپ یہ بھی نہیں سمجھ رہے کہ سیزنز پر سیزنز اتنی جلدی کیوں آتے ہیں۔ وہ بھی اتنی جلدی؟؟؟
حالانکہ کہ کتاب کے لئے ریسرچ پر تو کئی دفعہ چھ ماہ، ایک سال بھی لگ جاتا ہے۔ مختلف صاحب عقل لوگوں سے اس موضوع کے بارے میں بات کی جاتی ہے۔ ؟؟
کیا آپ کی آنکھیں اتنی بند ہوگئی ہیں۔ ؟ ؟
دوسرا سوال جو زیادہ تر موصول ہورہا ہے۔ قارئین اور لکھاریوں کی طرف سے کہ۔
یہ چیزیں تو ڈرامے میں موجود ہوتی ہیں۔ یہ تو لوگ ویسے بھی کررہے ہیں۔ تو یاد رکھیں وہ ساری چیزیں اس بات کی وضاحت نہیں ہیں کہ بولڈ لکھا جانا نارمل ہے۔ نہیں۔۔۔ کیونکہ کتابیں کسی بھی زمانے کی تاریخ بتاتی ہیں۔ اگر کسی کو کسی زمانے کے بارے میں جاننا ہوتا ہے تو وہ اس زمانے کی کتاب اٹھائے گا۔ کیا ہم بحیثیت مسلمان یہ بات ہضم کرسکتے ہیں کہ کوئی ہمارے زمانے کی کتاب اٹھائے اور اسے وہاں محض فحاشی نظر آئے۔ اردو ادب کا، پاکستانی مسلمان مصنفین کا جنازہ اٹھ جا ئے۔ یہ رومینٹک ٹرینڈز باہر مغربی ممالک میں چلتے ہیں۔ ہم مسلمان ہیں بحیثیت مسلمان ہمارا صرف ایک ٹرینڈ ہے اچھائی پھیلانا۔ اچھے برے میں فرق سمجھانا۔ ڈراماز اور کتابیں دو الگ چیزیں ہیں۔ ڈراماز ڈائریکٹرز لوگوں کی چوائس کے مطابق لکھواتے ہیں۔ جب کہ مصنفین لوگوں کے غلام نہیں ہوتے۔ وہ وہ چیزیں لکھتے ہیں جو سچی ہوں کھری ہوں، اور ایک مطلب لئے ہوئی ہوں۔ جنہیں ادبی زخیروں میں شامل کیا جاسکے۔
اب لکھاریوں کے لئے سوال آتا ہے۔ ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ ہم اچھا لکھ رہے ہیں۔
لکھنا ایک بہت بڑی زمہ داری ہے۔ وہی زمہ داری استاد کی ہوتی ہے۔ وہی زمہ داری جو کسی حاکم کی، طبیب کی، والدین کی ہوتی ہے۔ کیونکہ آپ ایک طرح سے الفاظ کے ذریعے لوگوں کی تربیت کررہے ہوتے ہیں۔ آپ کے لکھنے کا اہم مقصد اگر لوگوں کی اصلاح کرنا ہوگا۔ تو آپ اچھا لکھ پائنگے اور اگر محض پیسے کمانا ہوگا تو آپ صحیح اور غلط کا فرق کئے بغیر ایک یوٹیوب چینل کھولیں گے پھر ویڈیوز بنائنگے جن کی کور فوٹو پر چند نازیبا تصاویر ہوگی تاکہ آپ گندے ذہنیت کے حامل لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرسکے اور ساتھ گندے ڈائیلاگز ٹک ٹاک پر پوسٹ کریں گے تاکہ وہاں بھی پروموشن کرتے جائیں گے۔
جبکہ اگر آپ اچھا لکھنا چاہیں گے تو آپ لکھنے کوایک ہنر سمجھیں گے۔ آپ اپنی زبان پر توجہ دیں گے۔ کہانی لکھنے کے طریقون پر غور کریں گے۔ کرداروں کے ذریعے مختلف نقطہ نظر اور معاشرے کی اچھائی اور برائی اور پھر ان سے ملنے والے اسباق کو کیسے پیش کیا جائے۔ اس پر کام کریں گے۔
آپ ساتھ ساتھ اپنی اصلاح کریں گے۔ اپنے اچھے اور برے کے فرق کا جائیزہ لیں گے۔ کہ کہیں میرا نقطہ نظر میں تضاد یا جھول تو نہیں۔ کہیں میں خود تو کسی ذہنی بیماری میں مبتلا نہیں۔ اگر میں کسی مسئلے کو کہانی میں حل کر رہی ہوں تو کیا، میں اپنے ذاتی مسائل بھی حل کرسکتی ہوں کہ نہیں۔
یاد رکھیں اصلاح کی پہلی شروعات آپ کے اندر سے ہوتی ہے۔ پہلی روشنی آپ کے اندر پھوٹتی ہے۔ اور پھر اس میں آگے پھیلنے کی توانائی پیدا ہوتی ہے۔ کیا آپ کے اپنے اندر اندھیرا تو نہیں۔ کیا آپ لوگوں کو اسی اندھیرے میں تو نہیں دھکیل رہے۔
ان ساری چیزوں کا جائیزہ لیں۔ پہلے اپنی تربیت کریں۔
یہ محاورہ تو جانتے ہونگے جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں۔
آپ کے اندر خود عمل نہیں ہوگا تو آپ کے الفاظ میں تاثیر نہیں ہوگی۔ اللہ کو خوش کرنے والے بنیں گے تو آپ کا لفظ لوگوں کے دلوں میں روشنی پھیلائے گا۔
اور اگر برا لکھیں گے تو اپنی موت یاد رکھیں۔ آپ کو نہیں معلوم کے آپ کب کہاں ختم ہوسکتے ہیں۔ پھر یہ لاکھوں کے فولورز آپ کے کام نہیں آئن گے۔فحش سینز اور کردار آپ کے کام نہیں آئیں گے چاہے آپ نے اس کتاب میں آیات بھی کیوں نہ لکھی ہوں۔ کیوں کہ اللہ منافقت پسند نہیں کرتا۔ اس ٹاپک پر جتنی بات کی جائے کم ہیں۔ اس میں بہت سے پہلو نکلتے ہیں جو قابل غور یہ چند پیراگراف ایک ادنی کوشش ہیں۔
آج سے آپ نے فحش لکھاریوں کو اروٹک رائٹرز کہنا ہے اور ان کی تحریروں کو اروٹک رائٹنگ یا اروٹک بکس۔ اروٹک کا لفظ ادب میں ان تحریروں یا لکھاریوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یہ تحریری جسمانی خواہشات کو ابھارتی ہیں ان میں ایسے تھیمز ہوتے ہیں جو کہ ایک صاف زہنیت کے حامل شخص کے لئے زہر ہیں۔
اگر آپ کو اچھی کتابیں پڑھنی ہوں تو مندرجہ ذیل ویب سائیٹس پر جائیں ۔
یہ دونوں ویب سائٹس صاف ستھرے اور اصلاحی ناولز کی ہیں۔ ہر جگہ سے نہ پڑھ لیا کریں۔ مصنفین کو سوشل میڈیا پر سرچ کیا کریں دیکھا کریں وہ کس قسم کا مواد ڈالتے ہیں۔ اپنی زہنیت کی حفاظت کریں۔ تاکہ آپ ایک اچھی نسل کی تربیت کرسکیں۔
جن لکھاریوں کو لکھنے کا ہنر سیکھنا ہے ۔ وہ میرا رائٹنگ بلاگ جو کہ انسٹا گرام پر ہے۔ اسے فولو کرسکتے ہیں۔ اس پر آپ کو فری میں معلوماتی پوسٹس ملیں گی۔