میں کتنی دیر تک خالی صفحے کو تکتی رہتی ہوں لیکن دماغ میں کچھ نہیں آتا۔میں خود کو مجبور کرکے کچھ بے معنی الفاظ لکھ ڈالتی ہوں لیکن پھر اچانک انہیں مٹا دیتی ہوں۔پھر میں کچھ بھی اچھا لکھنے کو ناممکن سمجھ لیتی ہوں۔
میرادماغ کچھ اچھا لکھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن کیا؟ مجھے نہیں معلوم۔ میری ساری صلاحیت مجھے غائب ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے میں کچھ بھی تصور نہیں کرپارہی۔ میرا بہت سا قیمتی وقت اسی میں ضائع ہوجاتا ہے۔ مجھے اس مسئلے کا حل چاہئے۔ ۔۔!!
لیکن پھر میں اٹھ کر اپنی لکھنے کی ٹیبل سے دور ہوکے گھر کے یا کسی اور کام میں خود کو مصروف کردیتی ہوں، لیکن کچھ نہ لکھنے کا غم مجھے اندر ہی اندر سے تنگ کئے جاتا ہے۔ چاہے میں جتنی بھی کوشش کرلوں میں کچھ بھی نہیں لکھ پاتی ۔۔ایک لفظ تک نہیں۔پھر میرا ذہن لکھنے کے اس شوق کو دبانے لگتا ہے ۔ میں تقریبا ایک سال سے لکھ رہی ہوں لیکن یہ لکھنے کا سفر سارے وقت ایک سا نہیں رہتا۔ کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جب میں ہزار سے زائد الفاظ چند ہی لمحوں میں لکھ ڈالتی ہو ں ، لیکن کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ میں کچھ بھی نہیں لکھ پاتی۔ لیکن یہ مسئلہ صرف میرے ساتھ نہیں ہے یہ آپ کے ساتھ بھی ہے ، یہ ہر لکھاری کا مسئلہ ہے ۔ جسے انگریزی میںwriting block کہتے ہیں جبکہ اردو میں ہم اسے تحریری رکاوٹ کہہ سکتے ہیں۔
تو تحریری رکاوٹ ہمیں کب پیش آتی ہے۔اور یہ زیادہ تر ہم معصوم لکھاریوں پر ہی کیوں حملہ آور ہوتی ہے۔چلیں ہم تحریری رکاوٹ کی چند عام وجوہات پر بات کرتے ہیں۔
بہترین لکھنے کی خواہش:
لیو ٹولسٹوئے کہتے تھے: ’’ اگر تم کچھ بہترین کرنے کے لئے نکلو گے تو کبھی خوش نہیں ہو پاؤگے‘‘
نہیں یہ جملہ صحیح نہیں اسے دوبارہ لکھے جانا چاہئے۔کبھی کبھار ہم اپنے لکھے ہوئے سے بالکل مطمئن نہیں ہوپاتے۔ ہمارے اندر کا (بہترین پسند شخص ) perfectionist کبھی ہمارے لکھے ہوئے سے بالکل خوش نہیں ہو رہا ہوتا، اور یہی ہمارا سب سے بڑا دشمن بن جاتا ہے۔ اگر آپ perfectionistہیں، یا بننے جارہے ہیں، آپ لکھتے وقت مسلسل کسی نہ کسی مسئلے میں پھنستے جائنگے۔ کوئی بھی ، حقیقتا کوئی بھی پہلا مسودہ بہترین نہیں لکھتا۔ اور شائد آپ کا پہلا مسودہ اچھا نہ نکلے۔لیکن اس مسودے کو آپ نے فورا ہی تنگ آتے ہوئے ردی کی ٹوکری میں نہیں ڈالنا۔
کبھی کبھار جب میں اپنا پہلا مسودہ لکھ لیتی ہوں ، میں خود کو دو سے تین دن کا یا کم از کم ایک دن کا وقفہ دے دیتی ہوں۔ اور جب اس وقفے کے بعد دوبارہ لکھنے بیٹھتی ہوں تو پہلے مسودہ کو ایڈٹ کرکے ، اس میں سے جھول نکال کے اسے دوبارہ لکھ ڈالتی ہوں ، اور یقین مانیں وہ پہلے سے کافی اچھی حالت میں بدل جاتا ہے۔ یہ کافی تھکا دینے والا کام لگے گا لیکن فائدہ مند ہے۔(لیپ ٹاپ میں لکھیں گے تو آسانی ہوگی ، کیونکہ اسی پرانی فائل میں آپ سطر در سطر کانٹا چانٹی کریں گے، بالکل دوبارہ سے لکھنا نہیں پڑے گا ، جیسے رجسٹر میں لکھنے والوں کو کرنا ہوتا ہے)
چاہے آپ کا لکھا ہوا شروعات میں کتنا ہی برا کیوں نہ ہو لیکن مستقل مشق کرنے سے بہتری آتی جائے گی۔ تو لکھتے رہئے اور بہتر ہوتے رہئے ۔ اور بہترین لکھنے کو زیادہ خود پر سوار مت کریں، خاص طور پر جب آپ پہلی بار لکھ رہے ہوں۔
دوسروں سے موازنہ
ایانلا ونزانت کہتی ہیں: ’’ خود کا دوسروں سے موازنہ کرنا تشدد کا عمل ہے ، جو آپ اپنے ہی خلاف کرتے ہیں‘‘
(بہت سے لوگ ہیں جو مجھ سے بہت بہتر ہیں) اس کا کیا مطلب ہے ؟ جب بھی آپ ایک بہترین لکھا گیا تحریری مواد دیکھتے ہیں آپ کا اپنا لکھا ہوا اپنی اہمیت کھوتا جاتا ہے۔ ہم اکثر اپنی تحریروں کا موازنہ دوسروں سے کرتے ہیں۔ کوئی بات نہیں اگر یہ سیکھے جانے کے لئے کیا جائے، لیکن اسے آپ کے تحریری عمل کو متاثر نہیں کرنا چاہئے۔
اکثر اوقات ، ہمیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ہم اپنا موازنہ کس سے کررہے ہیں۔ اگر آپ نے پچھلے مہینے لکھنا شروع کیا ہے ۔ تو خود کادس سال پرانے تجربہ کار لکھاری سے موازنہ کرنے کی کیا تک بنتی ہے۔ ظاہر ہے یہ لکھاری آپ سے بہتر ہی ہوگا۔ اگر آپ اپنے لکھے ہوئے کا کسی سے مقابلہ کروانا چاہتے ہیں تو اپنی پچھلی لکھی گئی کسی تحریر سے کریں۔ اور آپ جانیں گے کہ آپ نے بہتری کی طرف کتنا سفر طے کرلیا ہے۔ دوسروں کے کام کو سیکھنے کی نیت سے دیکھیں، موازنہ کرنے کی نیت سے نہیں۔
میرے پاس لکھنے کے لئے کوئی خیالات ہی نہیں ہیں
ڈاکٹر سیوس کہتے ہیں: ’’دائیں سوچیں ، بائیں طرف سے سوچیں ، اونچا سوچیں اور نیچا سوچیں، اوہ ۔۔۔ آپ کئی خیال سوچیں گے اگر آپ صرف کوشش کریں۔‘‘
افسوس کی بات یہ ہے کہ کبھی کبھار آپ جتنا ایڑی چوٹی کا زور لگا لیں ، کتنا ہی سوچ ڈالیں کچھ دماغ میں نہیں آتا۔ آپ کا دماغ بالکل خالی ہوتا ہے کسی سفید صاف کاغذ کی مانند۔ جو آپ سے پوچھتا ہے۔۔’’ کیا تم واقعی ایک تخلیقی با صلاحیت انسان ہو؟‘‘ آپ چیختے ہوئے وہاں سے بھاگ جانا چاہیں گے ۔ پرسکون رہیں!!!! ایک گہری سانس لے کر آس پاس دیکھیں۔ آپ کے گرد بہت ساری چیزیں ہیں، یقینا آپ ان میں سے کسی کے بارے میں لکھ سکتے ہیں۔ اس چیز پر اتنا مت سوچیں، بس لکھیں۔۔۔ کیا آج جب آپ باہر نکلے تو موسم اچھا تھا؟ جب آپ کہیں گھومنے گئے تھے وہاں کی کونسی جگہ تھی جو آپ ابھی تک بھول نہیں پائے ؟؟
اوہ ہاں جب آپ نے بھائی کی منتیں کرکر کے چیز منگوائی تھی تو اس کے بارے میں کیا خیال ہے ، کیا آپ کو اتنی منتیں کرنی چاہئے تھی اس بات پر غصہ ہے تو کاغذ پر نکالیں نہ ، بولنے سے تو پھر سے لڑائی ہوجائے گی ۔
شائد ابھی آپ کی ٹخلیقی صلاحیت کام نہ کریں لیکن کچھ دیر بعد یا کل کام کرے گی ، کچھ بھی لکھ ڈالنے کی عادت ڈالیں۔
خود پر شک
’’ آپ کا سب سے بڑا دشمن آپ کا خود پر شک کرنا ہے‘‘ ۔۔سائلویا پلیتھ
میں نہیں لکھ سکتی ۔۔یہ سب لکھنے سے حاصل کیا ہوگا ، مجھے پتہ ہے میں آگے نہیں جاپاؤنگی ۔۔چہ چہ
یہ خود پر شک جو ہے ، اسی وجہ سے آپ کی انگلیاں حرکت نہیں کر پارہیں اور آپ مسلسل دماغ سے اسی جنگ میں ہیں کہ ، میں نہیں کرسکتی ، میں اتنی اچھی یا اچھا لکھاری نہیں ہوں، کیوں مجھ غریب پر ظلم کررہے ہو۔
اور یہ دشمن کبھی اکیلے حملہ نہیں کرتا، یہ ہمیشہ اپنے عزیز دوست ڈر کو ساتھ لے کر آتا ہے ۔ ( شائد لوگ مجھ پر ہنسیں ، میری تحریروں پر ، لوگ سوچیں گے میں بے وقوفانہ باتیں لکھ رہی ہوں )۔
تو بہتر ہے کہ آپ کرسی پر بیٹھیں ، ایک طرف ڈر کو بٹھائیں دوسری طرف سیلف ڈاؤٹ کو ، اور پھر دونوں کو ہی ایک ایک گھونسا رسید کرکے منظر سے غائب کردیں ۔ خود پر یقین رکھیں اور لکھتے رہیں۔ ایک دن آپ اپنے شکر گزار ہوں گے کچھ بن جانے کے لئے اور کچھ کر دکھانے کے لئے۔اگر لکھنا کا دل نہ کریں اس فائل رجسٹر کو بند کریں ۔اور کل واپس اپنی ٹیبل پر آئیں۔لیکن واپس ضرور آئیں اور لکھیں۔ آپ ایک لکھاری ہیں اور لکھ سکتے ہیں ،اس تحریری رکاوٹ سے لڑ پڑیں۔ اسی طرح کی مزید پوسٹ یہاں پڑھیں۔